آئین کی دفعہ 25 میں ملک کے تمام شہریوں کو بلاتفریق مذہب و عقیدہ کی
آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس دفعہ کا تعلق شہریو ںکے بنیادی حقوق سے ہے
جو ناقابل تنسیخ بھی ہیں اور جنہیں عام حالات میں عارضی طور پر بھی معطل
نہیں کیا جاسکتا۔ یہ آزادی فی الواقع کم و بیش دنیا کے تمام مہذب جمہوری
معاشروں میں شہریوں کو حاصل ہے اور کچھ مبصرین نے اسے اگر جمہوری معاشروں
کی روح قرار دیا ہے تو ان پر مبالغہ آرائی کا الزام بہرحال نہیں لگایا
جاسکتا۔ ہماری آئین ساز اسمبلی نے مذہبی آزادی، مذہب و عقیدہ کی تبلیغ
اور اس پر عمل کی آزادی کی ضمانت دے کر بلاشبہ ہندوستان جیسے کثیر مذاہب
والے ملک کی ضرورت کا بھی پاس و لحاظ کیا ہے اور ساتھ ساتھ ہندوستانی سماج
کی سیکولر بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن اس
آزادی کو قانون کے ذریعے ضابطہ بند کرنے کی ریاستی حکومتوں کو چھوٹ دے کر
او راسے صحت عامہ، اخلاقیات اور نظم و نسق کے ساتھ مشروط کرکے فی الواقع وہ
چور دروازے بھی کھول دیے ہیں جن کے ذریعے انہیں مسدود و محدود بھی کیا
جاسکتا ہے۔ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی ہے جو قانون کے ذریعے
تبدیلی مذہب کی آزادی پر قدغن لگانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ اس طرح
کی کوششیں آزادی سے پہلے بھی مختلف ریاستوں میں سامنے آتی رہی ہیں اور
آج بھی۔ اور آج تو اکثریت کے فرقہ پرستوں نے ان قوانین کے چور دروازوں کے
ذریعہ ہی ملک کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے پرسنل لا پر اپنے پورے تام
جھام سے ہلّہ بول دیا ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ یکساں
سول کوڈ کے نفاذ کے لیے فرقہ پرستوں کی تگ و دو اور طلاق ثلاثہ، تعدد
ازدواج اور حلالہ جیسی شرعی قوانین میں حکومت کی مداخلت ملک کی فاشسٹ قوتوں
کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر ہی کہی جائے گی۔ چونکہ مرکز پر اسی ٹولے کا
قبضہ ہے جس کی سرشت ، جس کی جبلت، جس کی فطرت اور جس کی عادت فرقہ پرستی کے
الائو میں پکاکر تیار کی گئی ہے۔ اس لیے اس وقت یہ اپنی پوری طاقت
مسلمانوں کے پرسنل لا کو مسخ کردینے یا اکھاڑ پھینکنے پر جھونکے ہوئے ہیں۔
2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی
کامیابی نے فرقہ پرست اور فاشسٹ قوتوں کو آپے سے باہر کردیا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اقتدار حاصل ہوتے ہی ملک کی اقلیتوں کے خلاف آئے دن طرح طرح کے غیر
انسانی عمل اختیار کیے جارہے ہیں او رملک کے سیکولر آئین کی دھجیاں اڑائی
جارہی ہیں۔
افسوس ناک پہلو ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین جو ایک ابدی
قوانین ہیں انہیں پوری طرح نہ ہمارے علماء اپنے معاندین کو سمجھا سکے اور
نہ ہی ہمارے ازلی دشمنوں کو سمجھنے کی توفیق ہوئی۔ ساری خرابی معاشرے میں
پھیلی وہ برائیاں ہیں جو ہمارے علماء دینی اور سماجی تنظیموں کی کوتاہیوں
کی وجہ سے دشمن ہمارے عائلی قوانین پر حملہ آور ہیں۔ تین طلاق، تعدد
ازدواج اور حلالہ جیسے قوانین پر صحیح عمل نہ ہونے کی وجہ سے آج پورے
معاشرے میں خلفشار بھی ہے اور ہم وطن بھائی بدگمانی کی زد میں بھی ہیں۔
مسلم پرسنل لا کا لفظ بظاہر ایک عمومی لفظ ہے لیکن عملاً اس سے مراد زیادہ
تر مسلمانوں سے متعلق
نکاح، طلاق کے ضوابط ناقابل تسخیر شرعی قوانین پر
مبنی ہیں۔ اس معاملے میں شریعت کی رو سے نکاح و طلاق کے ضوابط ابدی ہیں اور
ہر معاشرے او رہر زمانے میں یکساں طور پر قابل انطباق ہیں۔ نکاح و طلاق کے
بارے میں شرعی قوانین کی یہی خصوصی نوعیت اس بات میں مانع ہے کہ ان کو کسی
سیکولر حکومت میں عدالتی نظام کی ماتحتی میں دے دیا جائے۔ اس کے باوجود
ہمارے شرعی قوانین کو بار بار عدلیہ اور مقننہ کے گلیاروں میں موضوع بحث
بنایا گیا اور کوشش کی گئی کہ اسے یکساں سول کوڈ میں بدل دیا جائے۔ اس وقت
بھی جو کچھ ہو رہا ہے اسی مقصد کے تحت ہی ہورہا ہے۔ ملک میں سیکولر حکومت
رہی ہو یا کمیونل ہر ایک کی کوشش یہی رہی ہے کہ مسلمانوں کے شرعی قوانین
میں کیسے مداخلت کی جائے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے اندر پلنے والے نام نہاد
مسلمانوں او ران کی خواتین کی طرف سے نا انصافی، حق تلفی، یا غیر مساوی
سلوک جیسے الزام لگاتے ہوئے عدالت میں درخواستیں دی گئیں کہ شرعی قوانین
خصوصاً تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا جائے جبکہ اس میں شرعی قانون کا
تصور نہیں بلکہ یہ ایک سماجی خرابی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے اصلاح معاشرہ کی
تنظیموں پر الزام لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کو تاہیوں کے سبب ہی آج پورا
اسلامی نظام دشمنوں کی زد میں ہے۔
اس سے پہلے ہمارے کچھ نادان دوستوں کی حماقت سے طلاق ثلاثہ موضوع بحث بنا
اور پھر اس بہانے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھی اس میدان مع لنگر لنگوٹ کے
کود پڑا او راپنی جہالت اور رذالت کا جتنا ممکن ہوا مظاہرہ کیا اور انتہائی
رکیک حملے کیے گئے۔ ساتھ ہی سیاسی، مسلکی جماعتوں کی ناعقابت اندیشانہ
بیانات نے بھی اسلام دشمن دانشوروں، سیاستدانوں اور صحافیوں کو بڑا مواد
فراہم کیا اور دل کھول کر اسلامی قانون پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا
اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہمارے اسلامی قانون پر سیکولر تلوار لٹکنے لگی۔
اس طرح ایک بار پھر ملت اسلامی ہند کو اپنے اسلامی قانون کے تحفظ کے لیے
سیسہ پلائی دیوار بن جانے کا موقع فراہم ہوگیا ہے۔
یوں بھی اس ملک میں بسنے والے ہندوئوں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور
بودھوں کے ساتھ ہی مختلف کلچر اور تہذیب پر عمل کرنے والوں کو اس موضوع پر
غور و فکر اور فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دستور، سیکولرزم اور جمہوریت کے
یہ نام نہاد محافظ اور علمبردار کس طرح دستور کو پامال کر رہے ہیں؟ اور پھر
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مذہب و تہذیب کو ملک کی تمام آبادی پر بزور مسلط
کردیا جائے؟ اور کیا اس جبر و تشدد کی وجہ سے ملک کا اتحاد اور اس کی
سالمیت خطرے میں نہیں پڑجائے گی؟ اور ہندوستان کا وہ تصور جس میں تمام
مذاہب و مکاتب فکر اور تہذیب وزبان کو آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی
وہ پارہ پارہ نہیں ہوجائے گا؟ کیا کسی بھی مرحلہ میں مسلمان، عیسائی، سکھ،
بودھ، جین اور مختلف علاقوں کے قبائل اس جبر و تشدد کو برداشت کرتے ہوئے
اپنے مذہب و ثقافت سے سبکدوش ہونے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں
کم از کم میں مسلمانوں کے تعلق سے واضح لفظوں میں یہ اعلان ضروری سمجھتا
ہوں کہ مسلمان اپنی جان و مال کو قربان کرسکتا ہے مگر مذہب اسلام سے اپنی
وابستگی کو کبھی بھی ختم نہیں کرسکتا۔